وفا الزام ہوتی جا رہی ہے
جفا ، دشنام ہوتی جا رہی ہے
بہت ہنگامہ خیزی تھی جہاں پر
وہاں اب شام ہوتی جا رہی ہے
گواہی آسماں سے چاہئے اب
شہادت عام ہوتی جا رہی ہے
امن کی فاختہ بد باطنوں میں
بہت بدنام ہوتی جا رہی ہے
کریہہ المنظری اہل دھرم کی
جو طشت از بام ہوتی جا رہی ہے
تمہارے بند کمروں کی خباثت
برائے عام ہوتی جا رہی ہے
یہ رستہ کٹ چکا ہے منزلوں سے
ٹریفک جام ہوتی جا رہی ہے
اب اس کے بعد کی ساری تباہی
سبھی کے نام ہوتی جا رہی ہے
تمہاری داستاں مٹنے لگی ہے
خبر یہ عام ہوتی جا رہی ہے
(طاہر احمد بھٹی)
متعلقہ
غزل، از ، طاہر احمد بھٹی
پروفیسر رخشندہ بتول، جہلم، پاکستان
نظم۔۔۔ از سلطان ناصر، اسلام آباد