آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

احمدیہ مسجد گھوگھیاٹ ہو یا ۔۔۔طاہر احمد بھٹی

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

اپنا اپنا نقطہِ نظر ہے لیکن راقم اس خیال پر قائم ہے کہ پاکستان میں دیدہ دلیری کے ساتھ احمدیوں کے شھری حقوق سے کھلواڑ اور ان کی مساجد پر حملے یا قبرستانوں کی توڑ پھوڑ جیسے عوامل کے اصل ذمہ داران ریاستی ادارے اور انتظامیہ کی چشم پوشی ہے۔
اور ہر حملہ اپنی ذات میں ایک اعتراف شکست ہوتا ہے۔ اس بات کا اعتراف کہ آج تک احمدیت کے خلاف کی جانے والی کوئی بھی سازش اور کوشش ثمر آور نہیں ہو سکی۔ اس پر مستزاد احمدیوں کا رد عمل ہے جو کبھی بھی حملہ کروانے والوں کی امیدوں کے مطابق ظاہر نہیں ہوتا۔
ایسے حملوں سے ضرور ان کی مرضی کے نتائج برآمد ہوتے اگر ٹارگٹ گروپ احمدیوں کے علاوہ کوئی اور غیر منظم اور سر کٹے دھڑ والا مذہبی دھڑا ہوتا تو!
خود احمدی بڑی آشیر بادوں کے ساتھ ایک پریشر گروپ ہوتے اگر ان کا خمیر بھی طالع آزماؤں کی انگلیوں پر ناچنے والے موقع پرست مادے سے اٹھا ہوتا۔
احمدی ایک مذہبی اکائی کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لئے کسی طرح سے کار آمد نہیں ہیں کیونکہ ان کو بوقت ضرورت انفرادی اور اجتماعی سطح پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ان کی انفرادی اور اجتماعی ضروریات کے لئے یہ کسی حکومت کے دنیا بھر میں کہیں بھی محتاج نہیں ہیں۔
ان کو اپنے انفرادی اور اجتماعی حقوق کے لئے قربانی دینے کا شعور حاصل ہے اور باینہمہ یہ ماضی سے حال اور لمحہ موجود سے مستقبل پر سنجیدہ نظر رکھنے کی اہلیت کے بھی حامل ہیں۔
ان کے عامتہ الناس کی انرجی ان کی لیڈر شپ کے وژن کے تابع مجتمع اور کنٹرول کے اندر ہے اس لئے یہ سڑکوں پہ گھسیٹے جانے کے لئے بصورت جتھہ دستیاب نہیں ہیں۔
ایک ہستی ہوتی ہے، اللہ رب العزت، جس کا نام ہندؤوں کی طرح جپا تو گلیوں میں جاتا ہے مگر اس سے ذاتی تعلق کا شرف اس زمانے میں صرف احمدیوں کو نصیب ہے اور اسی تعلق کی بنیاد پر ان کا توکل علی اللہ ایک بالکل الگ نظر آنے والا منظر ہے۔
وہ شعور سے بھر پور توکل ہے جو بامعنی صبر کی توفیق دیتا ہے ورنہ یہی ہجوم جو مسجد گھوگھیاٹ پر حملہ آور ہے اس کو بھاگنے کا رستہ تک نہ ملے۔
راہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا
چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے ہوئے
ان حقائق کے ہوتے ہوئے ان ملانوں کو احمدی اپنے لئے لائف تھریٹ نہیں سمجھتے بلکہ یہ ملائیت پاکستان کی حکومتوں اور ریاستی اداروں کے لئے لائف لائن ہے اور وہ اس وقت اسی لائف لائن سے اپنی زندگی کے لئے درکار خون چوسیں گے اور یہ طفیلئیے احمدیوں کے خون پر پلنا چاہتے ہیں اور۔۔۔۔احمدیوں کا خدا یہ نہیں چاہتا۔
احمدیوں کا خدا ان کے جان مال وقت اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور احمدیوں کا خدا اپنے قائم کئے ہوئے نظام خلافت کے ذریعے ان کو ان کی قربان گاہیں شناخت کرنے پر خود نگران ہے۔
رب ارنا مناسکنا کا شعور رکھنے والے ریاستوں اور حکومتوں سے ٹریپ نہیں ہوتے۔
اور چونکہ ٹریپ نہیں ہوتے اس لئے ان پر مختلف فلیورز کا مختلف حالات میں دہی ڈال کر کتے چھوڑے جاتے ہیں۔
الھم مزقھم کی دعا گلیوں کے لونڈوں، ملانوں سے لے کر اعلی ترین ایوانوں اور اداروں کے سربراہوں تک سب پر حاوی ہے اور ذلت کی مار ہر سطح پر دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے ایسے ادارے ٹوٹ کر گر رہے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور سب اس بات پر متفق ہیں کی اس صورت حال میں کوئی ,وے آؤٹ، نہیں نظر آ رہا۔
ایسی حالت میں ہم آپ سے الجھ کر وہ دائرہ توڑ نہیں سکتے جو تقدیر خدا وندی نے کھینچ دیا ہے۔
مسجدیں اور مینار ضرور تعمیر ہونگے لیکن ان کی تعمیر نو کی بنیادیں آپ کی منافقت آمیز تکبر اور بدنیتی میں مملو رعونت کی قبروں پر رکھی جائیں گی۔
ہمیں بھی عہد کے انجام سے ہے دلچسپی
کہ ہم فقیروں کا اس نے ادھار دینا ہے
ہر دوسرے دن جس ملک میں مرد اور عورتیں نبوت کے دعوے کر رہے ہیں اور سیدھا سیدھا خود کو محمد (نعوذ با للہ) قرار دے رہے ہیں اس میں مسجدوں کے مینارے کس شمار قطار میں ؟ وہ تو صرف اینٹوں سیمنٹ کے ڈھیر ہیں۔
ان کا تقدس اب آپ کی اجتماعی بد نیتی، ادارہ جاتی کمینگی اور حکومتی رٹ کے مکمل انہدام کے بعد ہی ممکن ہے-
اب واقعے کے اوپر نقد سودا نہیں ہو گا۔
گریٹ گیم کا اختتام ٹی وی کی بریکنگ نیوز میں نہیں ہوتا۔
یہ آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے
اس کے پرلے کنارے پر وہی ملیں گے جن کے لئے یہ تسلی ساتھ ہی اتاری گئی تھے کہ،
آگ تو ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔
اب ہمارا رد عمل بھی آپ کی رٹ اور عملداری کے زمین بوس ہونے کے بعد ہی بنتا ہے۔
اگر ابھی بول پڑے تو سابقہ خاموشی کس کھاتے میں جائے گی
لیجئے ایک شعر سنتے جائیں
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار