ربط جب ٹوٹ چکا ہے تو صدائیں کیسی
اب جو ملنا ہی نہیں ہے تو وفائیں کیسی
چند یادیں ہیں کچھ آنسو ہیں وہ واپس لے لو
جب نہیں جرم کوئی تو یہ سزائیں کیسی
چادریں جسم تو ڈھانپیں گی مگر سوچو تو
روح کے ننگ پہ ڈالو گے قبائیں کیسی
مستقل ایک اداسی میں تو دم گھٹتا ہے
صحن دل میں اتر آئی ہیں فضائیں کیسی
بے ثباتی پہ یقیں ہونے لگا ہے مجھ کو
چل رہی ہیں یہ پس ذات ہوائیں کیسی
طاہر احمد بھٹی
متعلقہ
A Lunch And The Echoes In Between by: Mona Farooq
انسانیت کی دربدری کا نام جنگ ہے، از، سعدیہ احمد، نیویارک
Is this Tip or the Iceberg itself ? By: Mona Farooq USA