آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

کتاب و شتاب کا مکالمہ، از ، انعم قریشی۔ پاکستان

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

یہ کتابی بریڈ کو سوشل میڈیا سے اتنی خار کیوں ہے بھئی؟؟
ہم نے کتابیں پڑھنے کو خوامخواہ کچھ زیادہ ہی گلوریفائے کر رکھا ہے۔۔۔ ہیں اب یہ کیا بات ہوئی؟؟ دھیرج رکھیے! ’بتاتی ہوں بتاتی ہوں تفصییییل سے بتاتی ہوں۔۔
جب سے کتب بینی کا رجحان کم ہوا ہے آپ یہ نوٹ کیجیے گا کہ جن کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہو وہ بھی چند موٹی موٹی کتابوں کے نام گنوا کر ‘کتابوں کے عاشق’ ہوئے پھِر رہے ہیں اور بضد ہیں کہ کسی طرح دھکّے سے ‘ادبی لاٹ’ میں ان کا بھی اندراج کر لیا جائے۔۔
بہرحال!!
کہہ میں یہ رہی تھی کہ ہم نے کتب بینی کو گلوریفائے ضرورت سے زیادہ ہی کر دیا ہے۔۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جس شخص نے جتنی کتابیں چاٹ لی ہوں اُس کی سوچ اُتنی ہی ریفائن ہوتی ہے۔۔ زندگی کے معاملات کو دیکھنے کا زاویہ دوسروں سے اتنا ہی مختلف ہوتا ہے۔۔ اس کا ذہن ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ تیزی سے ارتقائی مراحل طے کر لیتا ہے۔۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہوتا بھی ہے؟؟ بہہہت کم! اپنے اِردگرد چلتی پِھرتی مثالیں دیکھ لیں جواب قریب قریب یہی ہو گا۔۔
ایسا میں نہیں کہوں گی کہ ہر کتاب پڑھنے کی نہیں ہوتی کیونکہ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ایک انتہائی اوسط درجے کی کتاب بھی ہمیں کم از کم یہ ضرور سمجھا دیتی ہے کہ ہم اسے اس کیٹگری میں کیوں ڈال رہے ہیں۔۔ یہ کتابیں آپ پر کچھ نیا آشکار نہ بھی کریں تو بھی فائدہ یہ ضرور ہے کہ انہیں پڑھتے ہوئے آپ پر اپنی سٹینڈنگ مزید واضح ہو جاتی ہے۔۔
کچھ کتابیں محض پڑھنے کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہیں۔۔ لیکن ظاہر ہے نئے خیال کی جستجو میں رہنے والا ذہن اپنا وقت ایسی کتاب کے مطالعے میں نکالنے کے بجائے کسی ایسی کتاب کو پڑھنے میں خرچے گا جو اس کی سوچ پر نئے در وا کرے۔۔
ہر کتاب آپ کے دماغ کو کچوکے نہیں لگاتی۔۔ جو کتاب دماغ کو اُنگلی نہ کرے اس کا امپیکٹ کیا ہی ہو گا۔۔ سوائے اس کے کہ پڑھ کر چند جملوں سے حَظ اُٹھایا، اس کے آسرے وقت نکال لیا اور بُک شیلف پر سجا دی۔۔۔
یہ تو تھی ایک بات، دوسری بات یہ کہ میں یہاں سوشل میڈیا کا ذکر میں بطور خاص کرنا چاہوں گی کہ ایک تنقید بڑی تواتر سے ہوتی ہے کہ جو وقت فیس بک پر ضائع کیا جا سکتا ہے اس وقت میں کوئی اچھی کتاب بھی تو پڑھی جا سکتی ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اس ’کتابی بریڈ‘ کو سوشل میڈیا سے اتنی خار کیوں ہے؟ فیس بک کی ہی مثال لے لیجیے کون سا ایشو ہے جس پر یہاں بات نہیں ہوتی اور پھر رنگ رنگ کے تبصرے اور دلائل ۔۔ مطلب یااار پورا ایک فلو ہوتا ہے۔۔ ایسی ڈائیورسٹی آپ کو ایک ہی وقت میں کہاں ملتی ہے!
ایک لو آئی کیو دماغ کیا بات کر رہا ہے، ایوریج ذہن اس ایشو بارے کیا سوچ رہا ہے، ایک ایوالو مائنڈ کیا موقف رکھتا ہے۔۔ سب کا نظریہ سب کا خیال یہیں پڑھنے کو مل جاتا ہے۔۔
مزے کی بات یہ کہ یہاں کتاب کی طرح یکطرفہ کہانی نہیں سُننے کو ملے گی کہ ایک اپنی کہتا ہی جا رہا ہے اور دوسرا ہمہ تن گوش بیٹھا ہے۔۔ یعنی ون وے کمیونیکیشن چل رہی ہوتی ہے۔۔۔
کتاب میں بھی تو ہم کسی کی رائے ہی پڑھ رہے ہوتے ہیں، کسی کے تجربات کسی کے مشاہدات ہی کی جانکاری لے رہے ہوتے ہیں تو یہی سب ہمیں سوشل میڈیا پر بھی مل رہا ہے۔۔
بہترین بات یہ کہ یہاں ہمارا رول passive نہیں رہتا بلکہ ایکٹیو ہو جاتا ہے کیونکہ کسی بھی نکتے پر اپنا اعتراض فوراً ٹھک سے داخل کرا سکتے ہیں، کمنٹس میں اپنا کاؤنٹر آرگیومنٹ دے سکتے ہیں۔۔ اور وہیں پھر ایک مکالمہ شروع ہو جاتا ہے جو کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچا ہی دیتا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ یہاں ہر آئی کیو لیول کا بندہ موجود ہے۔۔ کسی کی رائے انتہائی بےتُکی بھی ہو سکتی ہے لیکن اب بات وہی آ جائے گی کہ کیا ہر کتاب لاجیکل ہوتی ہے؟ ایوریج ذہن اگر اپنے تجربات اور مشاہدات کو قلم بند کر کے چھپوا دے تو کتاب کے مصنف کی سند تو اُسے بھی مل جاتی ہے۔۔
تو بھئی مان لیجیے کہ جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ہر شعبے میں جدّت آئی ہے، دنیا ڈیجیٹلائزڈ ہو رہی ہے، ہم نوکیا 3310 سے اینڈرائیڈ اور اب آئی فون پر سوئچ کر چکے ہیں۔۔ تو اگر ہمیں بہت کچھ نیا پڑھنے اور سمجھنے کو سوشل میڈیا سے مل رہا ہے تو اعتراض کاہے کو؟
اچھا جاننے، سیکھنے اور سمجھنے کے اس عمل میں لوگوں کے ساتھ ہمارا انٹریکشن بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جس کا مطالعہ وسیع ہو تو اُس دو گھنٹے کی ملاقات میں ان کتابوں کا نچوڑ سامنے آ جاتا ہے جو اس کے زیرِ مطالعہ رہی ہوں۔۔
پھر لوگوں کے روّیے ان کی نفسیات کی کہانی بھی آپ کو تب ہی سمجھ آتی ہے جب ان سے واسطہ پڑتا ہے۔۔
کتابوں سے باہر کی دنیا کے ساتھ جڑّت اس لیے بھی ضروری ہے کہ کچھ تجربات ہمارے اپنے کر کے دیکھنے کے ہوتے ہیں۔ چونکہ کتابوں کی دنیا ہماری نہیں کسی اور کی تخلیق کردہ ہوتی ہے اس لیے ہم ہر چیز کو اپنی نہیں دوسرے کی آنکھ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
بہت سادہ سی مثال دوں گی کہ کوئی اگر آپ کو یہ آ کر بتائے کہ بارش میں بھیگ کر ایسا محسوس ہوتا ہے تو وہ ’ایسا‘ آپ اُس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک خود بارش میں بھیگنے کا تجربہ نہ کر چکے ہوں۔۔ کوئی بھی کتاب آپ کو کسی پھول کی خوشبو نہیں سمجھا سکتی جب تک آپ کے نتھنوں نے اُس کی مہک نہ سونگھی ہو۔۔
ایک بات اور۔۔ کتاب پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں بہت بہت فرق ہوتا ہے۔۔
تو کُل ملا کر بات یہ ہے کہ اب سوچنے سمجھنے اور سیکھنے کے میڈیم بدل رہے ہیں انہیں قبول کیجیے۔۔ جن دوستوں کا کتاب کے ساتھ رومانس ہے وہ شوق سے فرمائیں۔۔ ناسٹیلجیا کی وجہ سے ’کتابوں سے عشق کی آخری صدی‘ کا رونا بھی بےشک رو لیں لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کی یہ آخری صدی ہرگز نہیں ہے 🙂
نوٹ: تحریر گزشتہ سال کی تحریر ہے لیکن آج کل کتابوں سے محبت والے ایک بار پھر کتابوں کا رجحان ختم ہونے کا غم منا رہے ہیں اس لیے شیئر کرنا ضروری سمجھا۔۔۔