آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

جسم و جاں تک یہ آگ آپہنچی

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

طاہر احمد بھٹی

بات ہے شان تاثیر کے بارے میں قتل کے فتوے کی اور مغلپوررے تھانے میں درج پرچے کی اور کی جائے گی کھل کے۔۔۔۔۔پوری وضاحت کے ساتھ۔

کل سے کوئی چار پانچ تحریریں اردو انگریزی کی دیکھ چکا ہوں اور سارے لکھاری شان تاثیر کے معاملے میں پطرس بخاری بنے بیٹھے ہیں ۔

اہل قلم طنازی سے مظلوم و مقہور کا ساتھ دینے نکلے ہیں۔۔۔۔۔خدا خیر کرے۔

دولتانہ سپانسرڈ فسادات جب پنجاب بھر میں خوب بھڑک اٹھے تو ایک جلوس لائیلپور میں بھی سر فروشی کے نعروں سے مسلح ہو کر نکلا اور پولیس کی قلیل نفری پر ٹوٹ پڑنے کو تھا تو ڈپٹی کمشنر سے ہوائی فائر کرنے کی اجازت مانگی گئی۔ موصوف نے کہا کہ ہوائی فائر نہیں بلکہ سیدھی گولیاں مارو اور ہوم سیکرٹری کو کہا کہ ائیر کور کے لئے ہیلی کاپٹر بھیجو۔ میں ضلعے  عوام کے جان و مال کا تحفظ کھوکھلی دھمکیوں سے نہیں کر سکتا۔

سارے پنجاب میں آگ بھڑکی اور آخر جنرل اعظم کے مارشل لاء سے ٹھنڈی کی گئی لیکن لائیلپور میں دوبارہ جلوس نہیں نکلا۔ اور یہ تفصیل پنجاب حکومت کی سرکاری طور پر جاری رپورٹ میں ججوں کی ڈپٹی کمشنر کے لئے تحسین کے ساتھ درج ہے۔ اختلاف کرنے سے قبل محقق مزاج احباب ملاحظہ فرما لیں۔

میں جب بھی بات شروع کرتا ہوں تو وہیں سے کہ جب آپ نے بے اصولی اور لا قانونیت کو ایک کے لئے مباح قرار دیا تو باقی بھی اسی تلوار سے مریں گے۔

ایم ڈی تاثیر معروف مسلمان اور مسلم لیگ کے معاون و مددگار۔

سلمان تاثیر ملک گیر پارٹی کے سر بر آوردہ رکن اور گورنر۔۔۔۔۔جرم یہ کہ توہین کی۔۔۔۔۔کس کی؟ ملا ئیت کی۔

مار دیا ایک سپاہی نے۔۔۔۔۔اور وہ بن گیا علم دین ثانی۔

شان تاثیر نے کرسمس کی مبارکباد دی اور آسیہ کی دلجوئی کے لفظ بولے اور۔۔۔۔۔۔گستاخ ملعون اور واجب القتل ہو گیا۔

ایک جلا لی جتھہ حیدر اشرف صاحب کے دفتر جا پہنچا اور دوسرے مجاہد نے مغلپورے تھانے میں USB والا گمنام پرچہ نامزد شان تاثیر کے خلاف درج کروا دیا۔ جرم 295۔ سی جس کی سزا موت ہے۔

جب شان تاثیر کے والد کو دارلحکومت میں گولیاں مار کے دن دہاڑے قتل کیا گیا تو مفاہمت کے بادشاہ نے کان لپیٹے رکھے اور اب گڈ گورننس کے چیمپئین دم بخود ہیں۔

وسعت اللہ خان بہت عمدہ لکھاری ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔

وجاہت مسعود۔۔۔۔پاکستان میں ہی رہنا ہے بھئی۔

حسن نثار۔۔۔۔۔کو اگلے سال غصہ آئے گا۔

نجم سیٹھی کی یہ فیلڈ ہی نہیں۔

کامران خان ۔۔۔۔۔اس سے اہم ایشوز پہ۔۔۔اور اسی طرح سارا میڈیا ریت میں سر دبائے رکھے گا کہ جناب کیا کریں۔۔۔۔ایشو ہی ایسا ہے۔

اجتماعی سطح پر اگر گلا گھونٹنا ہو تو منکر ختم نبوت کا ہتھیار۔۔۔۔۔۔(یہ اصطلاح بھی ججوں نے مذکورہ بالا رپورٹ میں استعمال کی تھی) اٹھا لیں۔ اور پوری کی پوری جماعت احمدیہ کے خلاف فساد کروائیں، آئین سازیاں کروائیں یا بلوے کریں۔۔۔۔آپ آزاد ہیں۔

آپ آزاد ہیں۔ چاہے گھر لوٹیں یا معبد مسمار کریں۔ نفرت کا پر چار کریں یا سماجی مظالم۔ گلی کوچوں میں مغلظات بکیں یا منبروں پر چڑھ کر جھوٹ بولیں۔۔۔اس مملکت خدا داد میں آپ آزاد ہیں بشر طیکہ آپ کے ہاتھ میں ختم نبوت کا حربہ ہو۔

پھر آپ بین الاقوامی شھرت کے حامل سائنسدان ، قانون دان یا کسی بھی شخص پہ جیسا چاہے حملہ کریں بس اس کو قادیانی مرزائئ یا احمدی ثابت کر دیں۔۔۔۔اور اگر ثابت نہ کر سکیں تو الزام ہی لگا دیں۔ یقین کریں کہ اگر آپ نے صرف الزام بھی لگایا تو ۔۔۔۔آرمی چیف کے لیول کا آدمی بھی ایک دفعہ تو لرز جائے گا۔۔!

یہ تو منظم جماعت کا علاج ہے۔

اب رہے انفرادی شرفاء اور اکا دکا باضمیر آوازیں جو معاشرے میں ٹمٹما کر گھپ اندھیرے میں سمت ہی بتا دیں تو ان کے لئے یہ ہتھیار آ چکا ہے۔ توہین مذہب کا الزام ہی کافی ہے۔ پچیس کروڑ کی زیادہ تر ان پڑھ اور اس سے بھی زیادہ بے حس آبادی تحقیق کرنے کہاں جائے گی۔ اور جو معاشرے کے کان اور آنکھیں ہیں ان کو بندوق کے زور پہ چپ کروا دیں۔ بولے گا کون۔ وزیر داخلہ کو تو اور بہت کام ہیں۔ اور رانا ثناللہ ۔۔۔۔۔۔کیوں اس جنجھٹ میں پڑیں گے۔

کل ایک بڑے اخبار کے سرکردہ صحافی سے جب یہ ساری باتیں بیان کیں تو موصوف نے کہا کہ فوج ہی کر سکتی ہے کچھ۔ بندوق والے کو تو بندوق والا ہی روکے گا۔ اخبار والا تو اگر بولا تو مارا جائے گا۔

انفرادی اور اجتماعی گھٹن کا یہ حال ہے اور آپ نئے سال کا استقبال مبارکبادوں سے کرنے جا رہے ہیں۔

مجھے تو۔۔۔۔

جان جاتی دکھائی دیتی ہے۔

تیرا آنا نظر نہیں آتا۔۔۔۔

والی کیفیت لگ رہی ہے۔

شان تاثیر آپ کے لئے کسی نے لکھا ہے کہ آپ غلط وقت میں پیدا ہو گئے۔

میں اس بات کو غلط سمجھتا ہوں۔ آپ ٹھیک وقت اور ٹھیک جگہ پیدا ہوئے ہو البتہ دعا ہے کہ آپ اپنے حصے کا کام کر کے جائیں اور یہ سفر بہت کٹھن اور طویل ہے۔ اس میں چوہدری نثار تو کیا کوئی شجر سایہ دار بھی نہیں ہے۔ اور جرنیل سب دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔ پہلے بھی جب تک نفاذ شریعت والے مالا کنڈ سے اتر کر ویسٹریج والی جی ٹی روڈ پہ نہیں آنکلے تھے تو یہ چپ رہے لیکن جب چھاونیاں اس آگ کی لپیٹ میں آئیں تو پھر سیاسی نظام کی درخواست کا انتظار نہیں کیا۔ دعا کرو کہ ان واجب القتلی فتووں کی آنچ کنٹونمنٹ تک جلد پہنچے تا کہ عوام الناس کی جان و مال کے تحفظ کی جائز وجہ پیدا ہو سکے۔

ایک بات البتہ طے شدہ ہے کہ یہ جمہوریت پسند زنخوں اور مفاہمت پرست ہیجڑوں کا کام نہیں کہ وہ اس طوفان کو روک سکیں۔ معاشرہ سماجی اور سیاسی کسمپرسی کی طرف بڑھ رہا ہے اور تمہارے ہیش ٹیگ #pakistan for allکو دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے اب اتنا پانی گزر گیا ہے کہ پاکستان اب سب کا نہیں رہا۔

جنرل راحیل کے دور میں ایک لفظ سننے میں آیا تھا Evil nexus.

یہ ملاں اور کرپٹ سیاستدان کا گٹھ جوڑ اس کی بد ترین مثال ہے۔ جان اگر کسی انسان کے ہاتھ میں ہوتی تو اب تک تمہیں بھی مار چکے ہوتے لیکن آپ کو اور آپ جیسوں کو زندہ رہنا ہے۔ اپنے لئے اور قوم کے لئے۔

علامہ جاوید غامدی غیر احمدی اور غیر عیسائی مسلمان عالم تھے اور جلاوطنی میں ہیں کہ وہ توہین مذہب کے قانون کو قرآن سے اخذ کردہ نہیں سمجھتے۔

کہ سنگ و خشت مقید ہیں۔۔۔۔۔۔۔والی حالت ہے۔اور بولتے رہنا لازم ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر سوال اٹھانے اور جواب مانگنے ضروری ہیں۔

غصہ آئے تو اب ضبط کریں اور انرجی کو دیر تک استعمال کے لئے بچائیں۔اللہ آپ اور آپ کے خاندان کا حامی و ناصر ہو کہ اب پاکستان کی آئینی تاریخ اس مقام پہ پہنچ چکی ہے کہ آپ کو دعا دینا بھی۔۔۔۔توہین۔۔۔۔کے زمرے میں آتا ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔