غزل
درد ایسا کہ گفتگو روئے
اور ہر زخم کا لہو روئے
عشق رویا تھا آرزو کر کے
اب سنا ہے کہ آرزو روئے
دل تو رویا تھا رات بھر لیکن
عمر بھر وہ بھی کو بکو روئے
میرے سینہ سے لگ کے تنہائی
بے صدا بن کے چار سو روئے
جستجو کے ہزار موسم ہیں
اب کےساون میں جستجو روئے
کسمپرسی کو دیکھ کر افضل
میرا سجدہ مرا رکوع روئے
متعلقہ
یہ متن کھا گیا کہانی کو، منظوم پرسہ، طاہر احمد بھٹی
نظم کی صورت میں گھمبیر سوالات، از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی