آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

لبیک یا بلیک۔از فوزیہ منصور ،امریکہ

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

پھرمرے شہر میں پہلی سی اذاں ہونے دو

ہر سال رمضان کے دنوں میں ربوہ میں گزارے ہوئے رمضان المبارک کے ایام یاد آتے ہیں۔ ہم زمانہ طالب علمی میں روزے تو نہیں رکھتے تھے لیکن رمضان کی رونقوں سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہر صبح نماز فجر سے پہلے صلّ علیٰ کا ورد کرتے ہوئے لڑکے گلی سے گزرتے تھے (یہ سارے سال کا معمول تھا)، ہم شوقیہ سحری کرکے مسجد مبارک کی طرف بھاگتے تھے اورمسجد میں با جماعت نماز ادا کرتے تھے، صبح 10 بجے لجنہ کا (خواتین کے لئے کسی گھر میں) درس القرآن پورے سپارے کا ہوتا تھا ۔ درس سن کر گھر آتے تو پھر ظہر کی نمازکے لئے مسجد کی طرف روانگی۔ اس کے بعد گھر آکر خود قرآن پڑھتے اور کچھ آرام اور ذرا سا سو کر اٹھتے تھے تو عصر کا وقت ہو رہا ہوتا تھا۔ مسجد میں عصر کی نماز کے بعد بھی پورے ایک سپارے کا درس ہوتا تھا۔ مغرب سے کچھ پہلے گھر آکر امی کے ساتھ افطار کی تیاری کرتے تھے۔ شام کو ایک ساتھ کئی گھروں سے افطاری کے لئے کھانوں کی ٹرے بھی آجاتی تھی اور جواب میں سب ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ بھجوارہے ہوتے تھے ۔افطار کے فوراً بعد مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے پھرمسجد کو دوڑ ہوتی تھی، واپس آکر کھانا کھایا اور پھر نماز عشاء اور تراویح کے لئے مسجد چلے جاتے تھے۔ تراویح میں پورا سپارہ پڑھا جاتا تھا۔ ایک سپارہ تین دفعہ دن میں سنتے تھے۔ ایک دفعہ خود بھی پڑھنا ہوتا تھا۔ ایسا با برکت ماحول تھا کہ وقت کے ضیاع کا کوئی موقع ہی نہیں تھا۔ چونکہ گھروں کی دیواریں ساتھ ساتھ ملی ہوئی تھیں ہر گھر سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنائی دیتی تھی۔۔ یوں لگتا تھا پورے شہر پہ فرشتے سایہ کئے ہوئے ہیں، سارے شہر کی فضا میں ایک سکون اور طمانیت محسوس ہوتی تھی۔ پھرایک ایسا دور آیا جس میں جنرل ضیاءالحق کو اسلام کی “خدمت” کا دورہ پڑا اور احمدیوں کی ہر ایسی حرکت پر پابندی لگ گئی جو ان کو مسلمان ظاہر کرتی تھی۔ گلیوں سے اٹھنے والی صلّ علیٰ کی آوازیں “اسلامی قوانین” کی وجہ سے بند ہوگئیں، اذانوں کی جگہ مسجدوں سے گھنٹیوں کی آوازیں آنے لگیں (ربوہ میں نماز کا اعلان گھنٹی بجا کر کیا جاتا ہے)
قرآن پڑھنے اور رکھنے کے الزام میں احمدی گرفتار ہونے لگے۔ کافر تو ان کو پہلے ہی قرار دیا جا چکا تھا اب تقاضہ یہ تھا کہ کافروں کی طرح رہنا شروع کریں۔ اسلام کے ٹھیکیدار اس ملک میں روز بروز بڑھتے گئے اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ آج احمدی تو رہے ایک طرف، اب سارے ہی اپنے ایمان کی وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں۔

۲۶اپریل کو ضیاءالحق کے بنائے ہوئے اس آرڈیننیس کو ۳۷ سال کا عرصہ گزر گیا۔ ربوہ میں مسجد سے اذان کی آواز سنے بغیردو نسلیں جوان ہوگئیں۔ ان مسجدوں سے اذانوں کی بجائے گھنٹیاں بجا کر نماز کا اعلان کیا جاتا ہے بڑے تو اس بات کو سمجھتے ہیں لیکن دکھ اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب چھوٹے چھوٹے معصوم بچے توتلی زبان میں کہتے ہیں “اماں ماز کی گھنتی ہوگئی ماز پڑھ لو” ۔ اس وقت خیال آتا ہے کہ کیا واقعی یہ ایک اسلامی ملک ہے؟ ربوہ شائد پاکستان کا واحد شہر تھا جہاں کے نوجوان فجر کے وقت گلیوں میں صلّ علٰی نبینا صلّ علیٰ محمد کا ورد کرتے ہوئے سب کو نماز کے لئے اٹھاتے تھے۔ اب گھروں سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ لیکن قرآن دلوں میں بستا ہے۔ یوں تو چھپ کر عبادت کرنا اور قرآن پڑھنا سنت نبویﷺ ہے اور یہ سعادت بھی احمدیوں کو نصیب ہوئی۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ کہ ان قوانین بنانے والے اور ان کے چیلے چانٹوں کے نصیب میں صرف کفار مکہ کی روش پہ چلنا ہی کیوں آیا ہے؟ اسلام کے نام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرکے جو کھلواڑانہوں نے خدا کے دین کے ساتھ کیا ہے اس کی سزا تو اب بھگتنا پڑے گی ۔

پچھلے دنوں عادل نجم صاحب کا ایک تبصرہ نظر سے گزرا کہ ان نام نہاد مذہبی جماعتوں کو مذہبی جماعت کہنا تو بند کریں۔ ہم لوگوں نے ان کو خود ہی دین کا ٹھیکیدار بنا دیا ہے حالانکہ ان کا مطمح نظر صرف سیاست ہے۔ عادل نجم صاحب کی یہ بات بہت دل کو لگی۔ واقعی جب دین کا ٹھیکہ ان کے ہاتھ میں دے دیا تو پھر رونا کس بات کا؟

اب بھی رمضان کا با برکت مہینہ ہے جب کہ پاکستان کے کسی کونے میں برکت نظر نہیں آتی ۔ ربوہ کی گلیاں تو خاموش ہیں لیکن سارا ملک لبیک یا رسول اللہ سے گونج رہا ہے اوراس کے ساتھ بد امنی اور توڑ پھوڑ نے اس ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔اسلام کے نام پر جتنا ظلم پاکستان میں کیا گیا ہے اور جتنا نقصان اسلام کو پاکستان کے قوانین نے پہنچایا ہے شائد کسی کافر ملک نے بھی نہ کیا ہو۔ ۔ بلکہ مولویت نے ایسا گیھرا ڈال رکھا ہے اس “اسلام” کی محبت میں ناموس رسالت اور توہین رسالت کے قوانین بنے اور پہلے غیر مسلموں کی زندگی اجیرن ہوئی اور اب یہ آگ اپنے گھروں تک پہنچنے لگ گئی ہے تو احتجاج کی آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئی ہیں۔ اب اس ملک کا کیا بنے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کس چیز نے ملک کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے؟ ربوہ کی گلیوں سے اٹھنے والی صل علی نبینا کی صدا نے یا لبیک یا رسول اللہ کے کھوکھلے نعروں نے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے

امتہ الباری ناصر صاحبہ کے الفاظ میں بات کو سمیٹتے ہیں کہ زیادہ اور اصولی سہولت نہیں دے سکتے تو سانس لینے کے لئے سطح آب پر رکھنے اور رہنے کے لئے اتنا تو ہو کم از کم کہ

“تم سنا ہی نہ کرو، بند دریچے کر لو
پھرمرے شہر میں پہلی سی اذاں ہونے دو