آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

مدرسوں کی تشریح و اوصاف

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سبوخ سید، اسلام آباد، پاکستان

 جن لوگوں کو میری اس بات پر اعتراض ہے کہ مدرسے نان پروڈیکٹیو ایکٹیویٹی ہیں ، ان کی خدمت میں ان کے سب سے بڑے شاہکار کی ویڈیو پیش ہے جس کا دعوی ہے کہ انہوں نے بیس دنوں میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔ یہاں سے پاکستان میں پی ایچ ڈی کی اوقات بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ 
جس ملک میں نوجوان صرف امتحان سے قبل رات کو خلاصوں سے پڑھ کر پاس ہو جاتے ہوں ، جہاں طلبہ میں تنقیدی شعور ہی نہ ہو ۔وہاں اکابر چلتے ہیں ۔ اکابر پرستی تنقیدی شعور کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
 مدرسے سے فارغ ہونے والی پراڈکٹ صرف یہی ہے کہ فلان کافر ، فلاں کافر ، فلاں مرتد ، گستاخ رسول ، جہنمی ، مشرک ،بدعتی ، گمراہ کے علاوہ اور کیا ہے ۔ 
 اب ملاحظہ فرمائیں منظور مینگل کے نزدیک وحید الدین خان ،  ابوالاعلی مودودی اور فیضی سب مرتد تھے اور ان کے نزدیک مرتد کی سزا قتل ہے ۔ اسی طرح مولانا مودودی ، مولوی اسحاق اور محمد علی مرزا اور باقی بڑے بڑوں کے نزدیک کچھ صحابہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کرپٹ تھے ۔  ملائیت قدامت پرست ہو یا جدت پسند ، اس کے اندر سے یہی کچھ نکلتا ہے ۔ ان کے جدید میں بھی ایک جگہ پہنچ کر قدیمی رگ پھڑک اٹھتی ہے ۔ آپ کچھ بھی کرلیں ، جب بھی  مدرسہ قائم کریں گے تو اس کے نتائج یہی بر آمد ہوں گے ۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے ۔ مدرسوں کی موجودگی میں مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے قیام کی توقع آسمان سے تارے توڑ کر لانے جیسے محاورے کو معانی کی شلوار پہنانے کی واہیات کوشش کے سوا کچھ نہیں ۔ 
مدرسہ ایک مورچہ ہے ، مدرسہ ایک محاذ ہے اور خود دینی مدارس کے بڑوں کے نزدیک یہ اسلام کے قلعے ہیں ۔ اسلام کے ان قلعوں سے اکثر دوسرے مسلمان فرقوں کے خلاف ہی بمباری ہوتی ہے ۔ یہ مدرسے امریکی ایما پر ضیاٗ الحق صاحب کے دور میں بنائے گئے تھے اور ان میں افغانستان اور کشمیر کے لیے ایندھن بھرتی کیا گیا ۔ دشمن کو ڈسنے کے لیے اپنے صحن میں ناگ پالنے والوں کو خیال ہی نہ آیا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے ۔ آج ملکی اور عالمی سطح پر پاکستان کا چہرہ ایک انتہا پسند ریاست کے طور پر مشخص ہو چکا ہے ۔ 
اس لیے اپنے ملک پر رحم کرنا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں سالانہ بے روزگاروں اور غیر ہنرمندوں کی اس فورس کو ضائع ہونے سے بچائیں ورنہ انہیں کبھی ہئیت مقتدرہ استعمال کرے گی اور کبھی مذہبی جماعتیں اپنی بلیک میلنگ کے لیے اور ” اسلامی نظام ” قائم کرنے کے لیے استعمال کریں گے ۔ گذشتہ بیس برس سے میں مذہبی جماعتیں کور کر رہا ہوں ، طال بان ، ال قاع دہ ، داع ش ، لش کر جھ نگ وی ، ج نود ال حفظہ ، سید منور حسن ، مولانا عبدالعزیز اور خ ا د م رضوی سے زیادہ اسلام کے نفاذ کے لیے سنجیدہ شخص مجھے کوئی دکھائی نہیں دیا ۔ ان سے اختلاف کی بات الگ ہے لیکن یہی وہ چہرے ہیں جو پورے صدق دل کے ساتھ معاشرے میں اسلام ” نافذ ” کرنے کے لیے بر سر پیکار رہے ۔ خود مرے ، تباہ ہوئے ، برباد ہوئے ، دوسروں کو مار دیا ، تباہ کیا ، برباد کیا ۔ 
 اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو فعال بنا کر ملک صوبائی حکومتوں کے ماتحت ترکی کی طرز امام خطیب اسکول کھولے جائیں ۔ 
مساجد کا نظم بنا کر پورے ملک میں قائم مساجد کو رجسٹرڈ کیا جائے ۔ 
ان مساجد میں ان اسکولوں سے تیار شدہ علماٗ کو ملازمت دی جائے ۔ 
مسجد کے امام ،خطیب ، موذن اور قاری کا انتخاب میرٹ پر کیا جائے اور ان کے لیے علماٗ کا ایک بورڈ خطبات تیار کرے ۔ 
اسلام آباد سمیت ملک بھر سے قبضہ شدہ مساجد اور مدارس کو ختم کیا جائے ۔ 
فتوی کا اختیار صرف اسلامی نظریاتی کونسل کو دیا جائے ( اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن کا تقرر چاپلوسی کی بجائے اہلیت اور میرٹ پر کیا جائے ۔ حکومت نے مولویوں کو خاموش کرنے اور باقی مولویوں سے ڈیل کرنے کے لیے اس ادارے کا استعمال کر رہی ہے، ابھی حال میں ہی جس قسم کے ارکان کونسل میں بھرتی کیے گئے ہیں ، بات سمجھنا تو درکنار ،  کئی اراکین   کو تو شاید سیدھا جملہ بھی لکھنا نہیں آتا )۔ 
کئی اور تجاویز بھی دی جا سکتی ہیں لیکن ہمیں علم ہے کہ اس ماحول میں سنجیدہ بات کرنا کوئی آسان نہیں ، یہ جہالت کا بدترین دور ہے جس میں معاشرے میں خیر کی بات کی جائے تو مولویوں کی سرپرستی میں طائف کے شرپسند لونڈے آپ کو کنکریاں مار مار کر لہو لہان کر دیں گے کیونکہ یہ حق کو پہچانتے ہیں اور ان کے بزرگوں نے انہیں شرارتوں پر لگایا ہوا ہے ۔ جب نان پروڈیکٹو انسٹی ٹیوٹ ہوں گے تو شرارت ہی سب سے بڑی پیداوار ہوگی ۔ آپ نے اگر طوائف کے وہ شرپسند لونڈے دیکھنے ہوں تو اس پوسٹ کے نیچے ہی دیکھ لیجے گا ۔  
نوٹ : میری یہ باتیں مدرسے کے طالب علموں اور مولویوں کے لیے نہیں ہیں ۔ میرا مخاطب طبقہ کوئی اور ہے ۔ آپ پریشان نہ ہوا کریں ۔ بیس کروڑ بندہ اگر سو دو سو بندے سے  گھبرا جائے تو سو دو سو ہی شرمندہ ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے مطمئن رہیں ورنہ ہم سمجھیں گے کہ آپ ہمارے نقطہ نظر سے خوفزدہ ہو گئے ہیں ۔
مذہبی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے اور پھر ان مدرسے سے فارغ ہونے والوں نے جو کچھ ایک دوسرے کے بارے میں لکھا ہے ، اگر اس کی ایک سیریز شروع کر دی جائے تو یقین مانیں آپ پڑھ کر اور دیکھ کر مر جائیں گے لیکن انہیں شرم نہیں آئے گی ۔ مولوی پوری کائنات میں ایک ہی جیسا ہوتا چاہے جس مذہب کا بھی ہو

برادرم سبوخ سید ایک کھلے ذہن سے سوچنے کی بیماری میں مبتلا حساس دل انسان ہیں اور جو محسوس کرتے ہیں وہ افادۂ عام کے لئے اپنی سوشل میڈیائی دیوار پر لکھ جاتے ہیں، جسے ہم کبھی کبھار نوشتہِ دیوار سمجھ کر اپنے قارئین و ناظرین کے لئی پیش کر دیتے ہیں۔ ایڈیٹر، آئینہِ ابصار