از مرزا بشیر الدین محمود احمد
بابِ رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا
جب تمھارا قادرِ مطلق خدا ہو جائے گا
دشمنِ جانی جو ہوگا آشنا ہوجائے گا
بوم بھی ہوگا اگر گھر میں ہما ہوجائے گا
آدمی تقویٰ سے آخر کیمیا ہو جائے گا
جس مسِ دل سے چھوئے گا وہ طلا ہوجائے گا
جو کہ شمع روئے دلبر پر فدا ہوجائے گا
خاک بھی ہوگا تو پھر خاکِ شفا ہوجائے گا
جو کوئی اس یار کے در کا گدا ہوجائے گا
ملکِ روحانی کا وہ فرمانروا ہوجائے گا
جس کو تم کہتے ہو یارو یہ فنا ہوجائے گا
ایک دن سارے جہاں کا پیشوا ہو جائے گا
کفر مٹ جائے گا زور اسلام کا ہوجائے گا
ایک دن حاصل ہمارا مدعا ہوجائے گا
مہدیٔ دوران کا جو خاکِ پا ہوجائے گا
مہرِ عالم تاب سے روشن سوا ہوجائے گا
جوکوئی تقوٰی کرے گا پیشوا ہوجائے گا
قبلہ رخ ہوتے ہوئے قبلہ نما ہوجائے گا
جس ک مسلک زھد و ذکر و اتقا ہوجائے گا
پنجۂ شیطاں سے وہ بالکل رہا ہوجائے گا
دیکھ لینا ایک دن خواہش بر آئے گی
میرا ہر ذرہ محمدؐ پر فدا ہوجائے گا
نقشِ پا پر جو محمدؐ کے چلے گا ایک دن
پیروی سے اس کی محبوب ِ خدا ہوجائے گا
دیر کرتے ہیں جو نیکی میں ہے کیا ان کا خیالموت کی ساعت میں بھی کچھ التوا ہوجائے گا
دشمنِ اسلام جب دیکھیں گے اک قہری نشاں
جاں نکل جائے گی ان کی دَم فنا ہوجائے گا
نائبِ خیر الرسل ہو کر کرے گا کام یہ
وارثِ تخت محمدؐ میرزا ہوجائے گا
حکمِ ربی سے یہ ہے پیچھے پڑا شیطان کے
اس کے ہاتھوں سے اب اس کا فیصلہ ہوجائے گا
اس کی باتوں سے ہی ٹوٹے گا یہ دجالی طلسم
اس کا ہر ہر لفظ موسیٰؑ کا عصا ہوجائے گا
خاک میں ملکر ملیں گے تجھ سے یارب ایک دن
درد جب حد سے بڑھے گا تو دوا ہوجائے گا
آبِ روحانی سے جب سیراب ہوگا
کل جہاںپانی پانی شرم سے اک بے حیا ہوجائے گا
ہیں درِ مالک پہ بیٹھے ہم لگائے ٹکٹکیہاں کبھی تو اپنا نالہ بھی رسا ہو جائے گا
بلبلہ پانی کا ہے انساں نہیں کرتا خیالایک ہی صدمہ اٹھا کر وہ ہوا ہوجائے گا
سختیوں سے قوم کی گھبرا نہ ہرگز اے عزیزکھا کے یہ پتھر تو لعلِ بے بہا ہو جائے گا
جو کوئی دریائے فکر دیں میں ہوگا غوطہ زنمیل اتر جائیگی اس کی دل صفا ہوجائے گا
قوم کے بغض و عداوت کی نہیں پروا ہمیںوقت یہ کٹ جائے گا ،فضلِ خدا ہو جائے گا
چھوڑ دو اعمالِ بد کے ساتھ بد صحبت بھی تمزخم سے انگور مل کر پھر ہرا ہوجائے گا
حق پہ ہم ہیں یا کہ یہ حساد ہیں جھگڑا ہے کیافیصلہ اس بات کا روزِ جزا ہوجائے گا
تیرا ہر ہر لفظ اے پیارے مسیؑحائے زماںحق کے پیاسوں کے لیے آب بقا ہوجائے گا
کیوں نہ گرد اب ِہلاکت سے نکل آئے گی
قومکشتیٔ دیں کا خدا جب نا خدا ہوجائے گا
کرلو جو کچھ موت کےآنے سے پہلے ہوسکے
تیر چھٹ کر موت کا پھر کیا خطا ہوجائے گا
عشقِ مولیٰ دل میں جب محمود ہوگا
موجزنیاد کر اس دن کو تو پھر کیا سے کیا ہوجائے گا
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?