آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

دھرتی دی ونگ بھج گئی

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

(طاہر احمد بھٹی، جرمنی)

مجھے پنجابی کی بولیاں پڑھنی اور سنانی تو آتی ہیں مگر لکھنی نہیں آتی ہیں۔
ایاز امیر صاحب کی تادیب کے لئے جس مکروہ بے ادبی، بد تمیزی اور سفلے پن کا سہارا لیا گیا ہے اس کو دیکھ اور سن کر آج سے مجھے پنجابی بولی بھگتنی اور سہنی بھی آ گئی ہے۔
اب کچھ اندازہ ہوا کہ بولی کا شکستہ سا ٹکڑہ ، بے معنی سا ردھم بن کر روح میں ارتعاش پیدا کرتا ہے اور وجود جھنجھنانے لگتا ہے۔
پھر اس کی زد میں بھوک ہو یا ننگ، رومانس ہو کہ گھمسان، کچوکے ہوں یا نسیان ، عدلیہ ہو کہ پارلیمان، آزادی ہو کہ زنجیر اور کوئی چھٹا ہوا بے ضمیر ہو یا مستند سا ایاز امیر۔۔۔ سب اس بولی کی آگ پر جھلسنے لگتے ہیں۔
پھر بولی کو لکھنا اور چھپوانا ثانوی ہو جاتا ہے۔ وہ پھر سینوں سے ابل کر گلی کوچے میں آباد ہو جاتی ہے۔
ایسی بولیوں کا امین معاشرے کا اجتماعی شعور ہوتا ہے، دانشوروں اور اہل حکم و حشم کے گھر اتنے دانے نہیں ہوتے کہ بولی کی تواضع کر سکیں اور میڈیا بولی کو پروموٹ کیا کرے گا وہ تو اس کی تفہیم سے ہی عاری ہوتا ہے۔
پٹھا ٹنگ کے اوہ میرے کولوں پچھدا
توں سد ھی گل کیوں نئیں کردا۔۔۔
اور یا پھر یہ کہ

اساں لکڑی دے اوٹھ بنا لے
تے بھار سارے آپ چک لے۔

پچھلی پانچ چھ دہائیوں سے لکڑی کے اونٹ ہیں جو ارباب اختیار کہلاتے ہیں اور وزن سارا وہ اٹھاتے ہیں جو جب دل چاہے اٹھا لئے جاتے ہیں۔
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی!!
ایاز امیر کو تو بہتر سال کا ہونے کے بعد کیا تمیز سکھائی جائے گی لیکن رنگوں کا کنٹراسٹ اتنا واضح ہو گیا ہے کی اب صر صر کو صبا ناں لکھنے کے لئے کسی حبیب جالب کی ضرورت نہیں رہی۔
جو بھی آنکھ بھر کے دیکھے گا اس کو جھاڑو پھیرتی باد سموم ہی دکھائی پڑے گی۔
اب تقریباً سبھی کو پٹنا ہو گا اور ہر کسی کی قمیص چاک ہو گی۔
ایاز امیر کی قمیص چاک ہونے کے بعد اب بہت کرتے اور کئی پاجامے تک چاک ہوں گے۔
ایک انذار البتہ بہت واضح ہے کہ، کرتا سب کا آگے سے ہی چاک ہو گا اور آج کے عزیزان مصر کی زلخائیں بری ہوں گی اور خزانوں پر جبری قابض، جعلی یوسف ماخوذ ہوں گے۔
گندم اور ضروریات زندگی کے لئے بھکاری اشرافیہ کے بھائی غلہ لینے ایسے بد انتظامی کے مارے ملک میں نہیں آئیں گے اور دھرتی بانجھ اور کھو کھلی بالیاں پیدا کر کے قومی استحکام اور ملکی سلامتی کا منہ چڑائے گی۔
کیونکہ،
دھرتی کے نصیب اجڑتے ہیں، جب ناگ اذانیں دیتے ہیں!
کرنے والوں نے ایاز امیر کا مورال برباد نہیں کیا بلکہ اپنی پیٹھ ننگی کر لی ہے۔
بائیس کروڑ لوگ اور لاکھوں مربع میل کا ملک ادھر ہی رہے گا مگر اس کے ساتھ منسوب حب الوطنی کا رومانس آپ کی اس حماقت سے مجروح ہوا ہے۔
وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے مگر گھونسے مکے مار کے کون سی محبت کروائی جاتی ہے؟
مگر ایسے سوالوں کا شعور اگر آپ کو ہوتا تو پھر آپ روز اپنے نام اور شناخت کیوں بدلتے۔ آپ کے بہروپ ہی بتا رہے ہیں کہ اب آپ کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔
وطنیت کی مانگ اجاڑنے اور چوڑیاں توڑنے میں آپ کا کردار ناقابل فراموش رہے گا۔
تو لیجئے میں اپنی لکھی بولی کہ جس سے میں نے عنوان لیا ہے مکمل کر دوں،

ہتھ پھڑن دا چج نئیوں آیا
تے دھرتی دی ونگ بھج گئی