آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

ریت مٹھی سے پھسلتی جا رہی ہے

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

شہباز گل کو اٹھا لیا، سمجھ میں آیا کہ بڑبولا تھا ، زبان سنبھال کے بات نہیں کی ، تو اگلوں نے گدی پہ ہاتھ ڈال دیا۔

اب پولیس موبائل فون برآمد کرنے کے لئے اس کے ڈرائیور کی بیوی کو اٹھا لائی ساتھ میں ایک سال بھر کی بچی، جو ابھی سے جیلیں بھگت رہی ہے۔

اور لوگ اس کے ساتھ مریم نواز کی تصویر لگا کر بوچھتے ہیں کہ اس کو بھی تو پکڑو۔

لوگ اب سوال اٹھانے لگے ہیں مگر اب دیر ہو چکی ہے۔

جب ہم سوئے دار چلے تب آئے ہمیں اپنانے لوگ

اب مٹھی سے ریت پھسلنے لگی ہے۔

اب یہ قول کوئی بھی دہرائے کہ، ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی، کفر کی چل سکتی ہے، تو یہ بے وقت کی راگنی ہے۔

مریم نواز کے چرچل کو کوٹ کرنے سے پریس کانفرنس کا ماحول چرچل اور برطانوی معاشرت کا نہیں بن سکا تو اب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اقوال آپ لوگوں کی منافقت کا نقاب کیسے بن سکتے ہیں۔

فوج جغرافیائی سرحدوں کی محافظ تھی، پھر نظریاتی سرحدوں کی ہو گئی، کیونکہ طالبان تو کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور مذاکرات ہیں کی ناکام ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں۔

ادھر کچھ دن سے معاشی سرحدوں کی نگرانی بھی آرمی چیف کو ہی کرنی پڑی اور نوبت باینجا رسید کہ اب معاشرت کے آداب اندرون ملک بھی وہی سکھائیں گے۔

کس نے کب اور کتنا بولنا ہے اور کس موقعے پر خاموش رہنا ہے۔ اس کی ایس او پی بھی وہیں سے آنی ہے اور فصلی پرندے آہستہ آہستہ براستہ دوبئی دوسرے ملکوں کو سدھار رہے ہیں۔

کونے میں کھڑے وسعت اللہ خان بارش میں الٹتے رکشے پر سرخی جما رہے ہیں۔۔۔

اے وطن پیارے وطن

اور اندھیرے اترنے شروع ہو چکے بس اتنے سے فرق کے ساتھ کہ اونچے سروں میں ان کو نور نور پکارنے والوں کا لشکر اب آسمان سر پر اٹھائے صبح صادق کی نوید انا رہا ہے اور اس پر ایمان لانے کے لئے لاٹھی گولی سے ماحول بنایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔مگر دس ماہ کہ جیل میں فیڈر پیتی بچی کو اس سے کیا اور اس کو جب پتا چلے گا تو تب تک پلوں کے نیچے سے واقعی بہت سا پانی گزر چکا ہو گا۔

کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر

دیتے ہیں پھر دہائی کہ سایا کرے کوئی

طاہر احمد بھٹی، از دیار غیر