ہم ابھی لاء کالج میں تھے کہ سُنا ججز اپنے قلم سے بولتے ہیں زبان سے نہیں۔ وکالت شروع کی تو بھی ججز کو سُنتے ہی پایا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی وضاحت طلب کر لی یا کسی نکتے کی طرف توجہ مبذول کروا دی۔ یہ بھی ہوا کہ سارا سارا دن وکیل صاحبان بولتے رہے اور ججز سُنتے رہے اور پھر۔۔۔۔۔اور پھر “عہد افتخار” ہمارے سر پر آن برسا اور جھلکیوں اور ٹکرز کا زمانہ آ گیا۔ اب ججز بولتے ہیں اور خلق خدا سُنتی اور سر دُھنتی ہے۔ بُرا ہو اس میڈیا کا کہ بس اینکرز اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے فیصلے سُنانے کی کسر رہ گئی ہے۔ ججز چیمبرز میں ٹی وی سارا دن آن رہتے ہیں اور بس جھلکیاں اور ٹکرز۔ بار کے ایک سینئر رکن ہونے کی حیثیت سے گذارش ہے کہ ججز حضرات دوبارہ سے قلم اُٹھائیں اور یہ خُطبات کا سلسلہ ترک فرما دیں ورنہ توہین عدالت کا قانون بھی آپ کی مدد سے قاصر ہو گا۔
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
سردار اسحاق خان ایڈوکیٹ مرحوم، از، طاہر احمد بھٹی
بد کرداروں کے سامنے نیک چلنی کے مچلکے، از، مونا فاروق، امریکہ
آئین کے وجود پر غیر آئینی جذام، از مونا فاروق، امریکہ