لشکرِ ظلم و ستم کھیت رہے آنکھوں میں
جوئے خوں دل سے چلے اور بہے آنکھوں میں
گفتگو دے کے چلی ہونٹوں کو اک مہرِ سکوت
شائد اب بات چلے بھی تو چلے آنکھوں میں
زندگی نے تو بدل ڈالا ہے عنوانِ جنوں
دل کوئی بات کرے بھی تو کرے آنکھوں میں
یاد اک طُرفہ مشقّت تھی جو اب بھول گئی
ملگجے دھیان کے کچھ سائے رہے آنکھوں میں
منظروں میں کہاں باقی تھی من و تو کی تمیز
اور لوگوں کی طرح ہم بھی رہے آنکھوں میں
دل نے تو سب سے چھپائے تجھ سے وابستہ سوال
کیا کریں آبلہ جب پھوٹ بہے آنکھوں میں
تم جو رستوں سے یہ کھلواڑ کرو ہو صاحب
“عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں”
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
جنگ، انسانیت کی تذلیل ،فرعونیت کی بلے بلے، از، شائزہ انور
جنگ فوجیں نہیں قومیں لڑتی ہیں، از، طاہر احمد بھٹی
پریس ریلیز، از، ترجمان جماعت احمدیہ ربوہ، پاکستان