تم بھی خاموش تماشائی تھے
احمدیوں پر ظلم، ریاست پر سوال
جب ایک مسیحا، جو دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھا، صرف اس بنا پر مار دیا جائے کہ وہ احمدی ہے، تو یہ صرف ایک فرد کا قتل نہیں ہوتا — یہ پورے ضمیرِ قومی کا جنازہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی حالیہ مذہبی انتہاپسندی کا یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے صرف افسوس کے دائرے میں نہیں بلکہ اجتماعی شعور کی عدالت میں لانا ضروری ہے۔
کراچی کی سینٹرل جیل کی ایک خاموش دیوار کے سائے میں، ایک انسان بے آواز دم توڑ گیا۔
اس کا جرم؟ احمدی ہوکر نماز پڑھنا تھا۔
یہ کوئی افسانہ نہیں، نہ ہی تاریخ کے کسی ستم رسیدہ دور کی روداد۔ یہ پاکستان کی موجودہ زمینی حقیقت ہے۔ جہاں ایک شہری، جس کا پیشہ طب تھا اور جو علم و خدمت کا پیکر تھا، محض اپنے عقیدے کی بنیاد پر قید کیا گیا — اور پھر اسی قید نے اس کی جان لے لی۔
ڈاکٹر طاہر محمود کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں، بلکہ اس پورے نظام عدل، قانون اور اخلاقیات کی موت ہے جو ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک شخص کو صرف اس لیے جیل میں ڈالا گیا کہ اُس نے جمعہ کی نماز پڑھی۔ اور پھر اُس کی لاش خاموشی سے جیل کی دیوار کے پیچھے سرد ہو گئی — ریاست کی خامشی کے ساتھ۔
احمدیوں کے لیے ویسے ہی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ روزمرہ زندگی کے معمولات میں بھی وہ غیر معمولی احتیاط برتنے پر مجبور ہیں۔ وہ زندگی کی تلخیوں کو سہتے ہوئے اپنے خاندانوں کی پرورش کرتے ہیں۔ لیکن جب ان کی عبادت اور رب کے سامنے سجدہ کرنے کی جسارت ایک قابلِ دست اندازی جرم بن جائے تو سزا صرف فرد کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو بھگتنا پڑتی ہے۔
اور وہ واحد نہیں تھا جس کی زندگی پر ظلم کے سائے پڑے۔ اس کے ساتھ اس کے خاندان کے تمام خواب دفن ہو گئے۔
ایک ماں جس کی نگاہیں بیٹے کی راہ تکتی تھیں، اب ہمیشہ کے لیے ویران ہو گئیں۔
بچے جنہوں نے اسکول جانا تھا، اب فیس کے لیے ترسیں گے۔
بیوی جو بیمار تھی، اب دوا سے نہیں بلکہ انصاف سے محروم ہو چکی ہے۔
مگر جیل سے باہر کی زندگی کیا واقعی آزادی کی علامت ہے؟
بالکل نہیں — کیونکہ ریاست نے کبھی پلٹ کر ان خاندانوں کو نہیں پوچھا، نہ ان کے لیے کچھ کیا۔ اور یہ ریاست کا ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔
پھر، 16 مئی 2025 کو، سرگودھا کے ایک نجی اسپتال میں ڈاکٹر شیخ محمود احمد کو دورانِ ڈیوٹی گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔
یہ وہی ڈاکٹر تھے جنہوں نے انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وطن واپس آ کر اپنی خدمات غریبوں کے لیے وقف کر دیں۔
جو شخص مریضوں کا علاج کرتا تھا، وہ نفرت کے ہاتھوں خود دل میں گولیاں کھا کر زندگی سے محروم کر دیا گیا۔
وہ ایک فرد نہیں تھا، وہ ایک نظام تھا۔ وہ مسیحا تھا۔ ہزاروں کے لیے امید تھا۔
اس کی شہادت صرف ایک وجود کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی سانحہ ہے — ایک اجتماعی پستی کی آخری سیڑھی۔
یہ کہاں کا انصاف ہے؟
کیا وطن سے محبت، علم، خدمت اور قربانی کی سزا موت ہے؟
کیا احمدی ہونا اب اس ملک میں قابلِ تعزیر جرم بن چکا ہے؟
کیا آئینِ پاکستان کی ضمانتیں صرف چند طبقات کے لیے مخصوص ہو چکی ہیں؟
ریاست خاموش ہے، قانون اندھا ہے، میڈیا بے نیاز، اور معاشرہ بے حس۔
گزشتہ ایک ماہ میں چار احمدیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔
اور ریاست کی طرف سے نہ کوئی مذمت، نہ انصاف، نہ بازپرس۔
جیسے یہ سب کچھ کسی اور سیارے پر ہو رہا ہو۔
پاکستان جب دنیا کے ڈپلومیٹک فرنٹ پر خود کو ایک نارمل ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے، تو کیا ہم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ان سنگین جرائم کی قیمت ادا نہیں کرنا پڑے گی؟
کیا خدا کا کوئی نظامِ عدل نہیں جو ظالم کو اتنی چھوٹ دے دے؟
نظام کی یہ بے حسی ایک دن سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔
ہم جن درندوں کو احمدیوں پر چھوڑ دیتے ہیں، وہی درندے کل کسی اور عقیدے، کسی اور زبان، کسی اور رائے رکھنے والے پر حملہ کریں گے۔
یہ آگ جو ہم نے لگائی ہے، یہ صرف ایک فرقے کو نہیں جلائے گی — بلکہ پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آئے گا۔
جس ملک میں خدمت کرنے والے قتل کر دیے جائیں اور قاتل دندناتے پھریں،
وہ ملک دنیا کی کسی عدالت میں عزت کا مدعی نہیں ہو سکتا۔
ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا:
کیا ہم واقعی ایک قوم ہیں؟
یا ایک ہجوم، جسے صرف مذہب، قومیت اور مسلک کے نام پر بہکایا جا سکتا ہے؟
کیا ہم وہ ملک بننا چاہتے ہیں جس میں نماز پڑھنے پر قید ہو، اور دوا دینے پر قتل ہو؟
اگر نہیں، تو پھر اب وقت آ چکا ہے کہ ہر ذی شعور پاکستانی خامشی توڑے۔
نہ صرف مظلوم کی آواز بنے، بلکہ ظلم کے اس منظم، ریاستی، اور سماجی نظام کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو۔
یہ مضمون کسی ایک فرقے یا طبقے کے لیے نہیں۔
یہ پاکستان کے ہر باسی کے لیے ہے جو انسانی شرف، آزادیٔ ضمیر، اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں،
تو تاریخ ہمیں صرف خاموش گواہ نہیں، شریکِ جرم بھی سمجھے گی۔
جس دیوار کے سائے میں ایک شخص مرا ہے،
کل کو وہ دیوار خود بولے گی — اور ہم سب سے سوال کرے گی:
“کیا تم بھی خاموش تماشائی تھے؟”
متعلقہ
سردار اسحاق خان ایڈوکیٹ مرحوم، از، طاہر احمد بھٹی
بد کرداروں کے سامنے نیک چلنی کے مچلکے، از، مونا فاروق، امریکہ
آئین کے وجود پر غیر آئینی جذام، از مونا فاروق، امریکہ