عکس اترا ہے آبگینے میں
زندگی لگ گئی ہے جینے میں
خون آشام سی ہےصبح وطن
جا بجا لالیاں شبینے میں
چشم ساقی کی حشر سامانی
منفعل سی ہے اس مہینے میں
یہ متن کھا گیا کہانی کو
دھڑکنیں مر گئی ہیں سینے میں
بر بریت ہے ناچتی چھت پر
آدمیت کھڑی ہے زینے میں
صرف بکواس آج تخت نشیں
گفتگو رہ گئی مدینے میں
جستجو نے پناہ ڈھونڈی ہے
تیری آواز کے قرینے میں
آرزو کے جہان مہکے ہیں
کیسی خوشبو تھی اس دفینے میں
زندگی دم بخود سی بیٹھی ہے
خاتمِ یار کے نگینے میں
متعلقہ
غزل ، از ، مدبر آسان قائل، جرمنی
What are Ahmadis in Pakistan, legally? By; Mona Farooq
غزل، از ، طاہر احمد بھٹی