آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

رولیکس سنبھال لو مگر وقت نکل چکا، طاہر احمد بھٹی

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سارے ارباب اختیار کو دنیا بھر نے گھڑیاں دیں اور سب نے ہاتھوں ہاتھ لیں مگر علامت کا مفہوم کسی کے پلے نہ پڑا۔۔۔! یعنی سب نے اس کو صرف رولیکس ہی سمجھا اور دام کھرے کئے۔
گھڑیاں دینے والے وقت کی چال پر نظر رکھے ہوئے تھے اس لئے بر وقت فیصلے کرتے رہے اور بدلتے وقت کے ساتھ خود کو بھی بدلتے رہے۔
سعودیہ ان کو گھڑیاں دیتا رہا اور خود وقت کی چال دیکھ کر عاطف میاں کو بھی اپنے ہاں بلاتا رہا اور امام کعبہ کو بھی جیل میں ڈالتا رہا، اور جو اقدامات وقت کی ضرورت بنے ان کو بلا دھڑک اٹھاتا رہا اور یہ گھڑیاں لے کر اچکوں کی طرح دلالی کی دکانیں ڈھونڈتے رہے۔
گھڑیاں دینے والوں کے اپنے ملک تھے اور وہ ملک ان کی نسلوں کی وراٹت تھے۔ ان کا سلوک اپنے ملکوں سے ملکیت جیسا تھا۔
پاکستان تو اٹھائی گیروں کے ہتھے چڑھا ہوا تھا اس لئے ان گھڑی بازوں کا سلوک اس ملک کے ساتھ ٹھیکیداروں والا تھا، زمینداروں والا نہیں۔۔! تو بس پھر یہی ہونا تھا ، رونا کیسا؟
قائد اعظم کو اللہ نے وقت پر ہی بلا لیا ورنہ فاطمہ جناح کے ساتھ بد سلوکی ہی بتا رہی ہے کہ یہ خود محمد علی جناح کے ساتھ کیا کرتے۔
دو منظم جماعتیں اور ان کی لیڈرشپ ایسی تھیں جن کی پاکستان بنانے کے لئے بانئ پاکستان کے ساتھ کوآرڈینیشن اور تعاون معین، ٹھوس اور تاریخی طور پر ثابت ہے۔
ایک احمدی اور دوسرے آغا خانی۔
ان دونوں کو پاکستان کے سیاسی، سماجی اور آئینی منظر نامے میں جس چابکدستی اور ڈھٹائی سے اجنبی بنا دیا گیا اس کے لئے کسی لمبی بحث کی حاجت نہیں۔ مجھ سے اور آپ سے شروع ہو کر دانشوری کے سر خیلوں تک سب کو پتہ ہے۔
چمٹی سے پکڑ کر الگ رکھے رکھا اور ۔۔۔۔غضب خدا کا کہ احراریئے اور مودودی اور دیوبندی پاکستان کے مالک بن بیٹھے ۔ یہ ملک ان کو تھما دیا گیا جو اس کے بنانے والے کے اشد معاند تھے۔ جو اس کو قائد اعظم کی بجائے کافر اعظم کہتے تھے۔
پاکستان کو ناجائز ولادت کا بچہ قرار دیتے تھے اور ان پھبتیوں اور جملے بازیوں پر فخر کرتے تھے۔
الٹی گنگا تو یہیں سے شروع ہو گئی ناں کہ جب جماعت اسلامی اور احرار پاکستان کے وارث بنا دئے گئے اور یہ کام افواج نے کیا۔
یہ کام اسٹیبلشمنٹ نے کیا اور بڑی ڈھٹائی سے کیا۔
یہ کام بھٹو نے کیا اور وہ سن ستر کی سیاست کا عمران خان ہی تھا۔
اقتدار اور طاقت کا سر چشمہ کمپرومائز کو سمجھتے ہوئے عوامی پن کا ڈھول بجاتے رہو۔
دانشور جن کو لیفٹ کے سرخے پن کے بعد مقامی شناخت کی اشد ضرورت تھی وہ ساتھ مل کر پاپولسٹ تشخص دیں گے مگر اپنے اشتراکی عقائد کے باوجود موروثی سیاست پر چپ رہیں گے۔
ادھر نواز شریف داڑھی والے باپ اور بھائی کے ذریعے مذہبی دھڑے گانٹھ لیں گے اور شہباز اور نواز کلین شیوڈ سیاستدان۔
کھائی جاو بھئی کھائی جاو۔۔۔۔استاد دامن نے طریقہ تو بتا ہی دیا تھا۔۔ضیاالحقی ضرورتیں پوری کرتے جائیں اور اثاثوں کے پہاڑ بناتے جائیں۔
فوج نے سیاستدانوں اور ملانوں کا نام لے کر احمدی ٹاپ براس کو ادارے سے بین کر دیا اور پچھلوں کے نام نصاب سے ضیا نے کھرچ دیئے اور کرنل سے آگے کا راستہ بلاک کر دیا۔
اگلی لاٹ آپ کے سامنے ہی ہے ساری۔
آئی ایس پی آر اب ٹوپیاں سر پر رکھنے کے لئے دونوں ہاتھوں سے سنبھال رہا ہے مگر، سوتر کو چوہے کتر چکے ہیں۔
باجوہ ڈاکٹرائین اور عمران پراجیکٹ ٹھیکیداروں کی آخری فصل تھی۔
ہمسائے زمینداروں کے ساتھ اعلی درجے کی کمینگی اور منافقت جاری رکھی، چین نے فیصلہ کن ترقی کر لی، انڈیا کی معیشت کا اب صرف گالیاں دی جا سکتی ہیں، اس کا بگاڑا کچھ نہیں جا سکتا۔
طالبان علاقوں پر دعوی رکھنے والی قوت بنا دئے گئے ہیں اور بلوچستان کے اندر ایران کا نفوذ۔
جائے حیرت ہے کہ آئینے کے اندر آئینہ۔
زرداری سندھ پر مطمئن اور باقی پاکستان کو بیٹا بیٹا کہہ کر پکارتا ہے اور خوش ہے۔
خود کو کنگ میکر سمجھتا ہے اور اپنا حصہ پکا سمجھتا ہے۔
بٹ گئی تھی دوستوں میں کام میں اور عشق میں،
مملکت خداداد اتنے ڈھیر سارے مفادات اور دھڑوں میں بٹ چکی اور وہ سارے وہ ٹھیکیدار ہیں جن کو سب کچھ مل گیا ہے۔ انہوں نے بنایا اور کمایا نہیں ہے، اس لئے ان سب نے گنوانا بھی کیا ہے؟
یہ سب احمدیوں اور آغا خانیوں اور حقائق و تاریخ کا سچا شعور رکھنے والے پاکستانیوں کی ملکیت تھا مگر ان کو اجنبی بنا دیا گیا ہے۔
متدین مزاج سچا پاکستانی ٹھڈے مار کر الگ کیا گیا ہے۔ اور مفاد پرست حب الوطنی کے فریم میں جڑ کر سجائے گئے ہیں۔
اب ان اتارے گئے ٹھیکیداروں کی اصل اور نسل کا امتحان ہے، وہ خود ہی بتا دیں گے کہ وہ کون تھے یا کون ہیں۔
ہم اب صرف دیکھ سکتے ہیں۔
ظہیر مہاروی کا سرائیکی شعر سنیں۔

جیندا وی اوہ بنے پیا
ساڈے توں تاں گیا نئیں

اب ان سارے گھڑی بازوں کی گھڑیاں ٹک ٹک کر رہی ہیں مگر اب وہ رولیکس کے سوئیاں نہیں ہیں۔ وہ سماجی اور سیاسی حماقتوں اور کوتاہ نظری کا ٹائم بم ہے۔ اس کی ٹک ٹک ہے تو اپنی رفتار پر مگر اب وہ ردھم بہت تیز لگ رہا ہے۔
الیکشن، ممبری، کونسل صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے۔
رولیکس بہت قیمتی ہے اور یہ ٹائم بم بہت مہلک ہے۔
ٹک ٹک البتہ دونوں کی ایک جیسی ہے۔
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
پڑھو خبریں اور سنو چینل۔
انتظار حسین کے افسانے کا جملہ ہے کہ
پڑھو کلمہ محمد کا ، خریدو حلوا بیسن کا۔
کلمہ پڑھتے پڑھتے گھڑیاں اکٹھی کر لی ہیں ۔ اب ان ٹک ٹک پر کان لگائے رکھیں اور انتظار کریں۔
اللہ حافظ رولیکس، اللہ حافظ پاکستان