ربط جب ٹوٹ چکا ہے تو صدائیں کیسی
اب جو ملنا ہی نہیں ہے تو وفائیں کیسی
چند یادیں ہیں کچھ آنسو ہیں وہ واپس لے لو
جب نہیں جرم کوئی تو یہ سزائیں کیسی
چادریں جسم تو ڈھانپیں گی مگر سوچو تو
روح کے ننگ پہ ڈالو گے قبائیں کیسی
مستقل ایک اداسی میں تو دم گھٹتا ہے
صحن دل میں اتر آئی ہیں فضائیں کیسی
بے ثباتی پہ یقیں ہونے لگا ہے مجھ کو
چل رہی ہیں یہ پس ذات ہوائیں کیسی
طاہر احمد بھٹی
متعلقہ
Are Wills really Free?
کتاب و شتاب کا مکالمہ، از ، انعم قریشی۔ پاکستان
احمدیوں کے قاتل کو پھانسی کا امکانی منظر نامہ، از،طاہر احمد بھٹی