نظم
زندگی لٹکی ہوئ ہے موت کی دہلیز پر
آگ بھی دہلیز پر ہے خون بھی دہلیز پر
دیں کی خاطر فرقہ بندی تفرقہ فتنہ فساد
بے یقینی ،خوف ، دھوکا دھاندلی دہلیز پر
فصل کاٹو اب مکافاتِ عمل کا دور ہے
آگیا منہ زور طوفاں اب تری دہلیز پر
جتنے باعث تھے عذابوں کے وہ سب یک جا ہوئے
کیوں نہ پھر قہر خدا آتا تری دہلیز پر
کیا ترقی اس طرح کی ہے کسی بھی قوم نے؟
سیم و زر ایواں میں علم و آگہی دہلیز پر
لگ گیا ہے خون منہ کو پڑ گئی پیسے کی لَت
اس لئے اتنی تباہی آ گئی دہلیز پر
چاہئے تیری حفاظت ،تیری نصرت اور رحم
رکھ دیا ہے اپنا سر مولیٰ تری دہلیز پر
متعلقہ
غزل ، از، زرغونے خالد، پاکستان
نادیہ سحر کے شعری مجموعے پر تبصرہ، از ، فرحت عباس شاہ
خواب ہوئے سب شہر بدر، از آذر لقمان