عکس اترا ہے آبگینے میں
زندگی لگ گئی ہے جینے میں
خون آشام سی ہےصبح وطن
جا بجا لالیاں شبینے میں
چشم ساقی کی حشر سامانی
منفعل سی ہے اس مہینے میں
یہ متن کھا گیا کہانی کو
دھڑکنیں مر گئی ہیں سینے میں
بر بریت ہے ناچتی چھت پر
آدمیت کھڑی ہے زینے میں
صرف بکواس آج تخت نشیں
گفتگو رہ گئی مدینے میں
جستجو نے پناہ ڈھونڈی ہے
تیری آواز کے قرینے میں
آرزو کے جہان مہکے ہیں
کیسی خوشبو تھی اس دفینے میں
زندگی دم بخود سی بیٹھی ہے
خاتمِ یار کے نگینے میں
متعلقہ
دیتے ہیں پھر دہائی کہ سایا کرے کوئی، از، مونا فاروق، امریکہ
An Aftermath, by Barrister Yasser Latif Hamdani
جنگی ہیجان کے درمیان سنجیدہ سوال، از، عدنان رحمت